¸.•♥´¨`♥•.¸¸.•♥´¨`♥•.¸¸.•♥´¨`♥•.¸¸.•♥´¨`♥•.¸¸.•♥´¨`♥•.¸.•♥´¨`♥•.
*.*.*.*.* WELLCOME TO My URDU WORLD.*.*.*.*.*
¸.•♥´¨`♥•.¸¸.•♥´¨`♥•.¸¸.•♥´¨`♥•.¸¸.¸.•♥´¨`♥•.¸.•♥´¨`♥•.¸.•♥´¨`♥•.

Wednesday, January 19, 2011

ہربل فیشل


دھوپ اور سورج کی تپش کی وجہ سے چہرے کی سکن کھردری اوررف ہو جاتی ہے ایسا سورج کی شعاعوں سے ہوتا ہے جو جلد کا رنگ بھی خراب کر دیتی ہیں اور جلد کی قدردتی چمک ختم ہونے سے جھریاں اور دانے نکلنا شروع ہو جاتے ہیں ایسے وقت پر فیشل کی ضرورت ہوتی ہے تاکہ سورج کی تپیش سے متا ثرہ جلد کی خفاظت ہو سکے کسی تقریب سے پہلے فیشل کرنے سے جلد تروتازہ ہو جاتی ہے اور میکپ اپ بہت اچھا ہوتا ہے ۔ آجکل بیوٹی پارلرز پر مختلیف طرح کے فیشل کئے جاتے ہیں جن کی قیمت بھی اسی حساب سے ہوتی ہے فیشل کرنا کوئی مشکل نہیں ہے اور یہ گھر پر بھی با آسانی ہو سکتا ہے جس پر زیادہ لاگت بھی نہیں آتی کیونکہ تمام اشیاء گھر پر ہی مل جائیں گی۔ اس کے لئے یہ سامان اکھٹا کر لیں۔ تولیہ، روئی، ٹشو پیپر، برتن میں گرم پانی، ہیز بینڈ، کلینزینگ کریم، سکرب، ماسک، زیتون یا ناریل کا تیل، چند جھڑی بوٹیاں، سکن ٹونک۔
آپ پریشان نہ ہوں کہ یہ سب کہاں سے آئے گا آپ یہ سب کچھ گھر پر بنائیں گی۔
سب سے پہلے اپنے بالوں کو ہیز بینڈ سے اچھی طرح باندھ لیں۔
Step 1۔
آلمنڈ کلینز ینگ کریم۔
2 انڈے کی زردی اور 125گرام شہد کو اچھی طرح مکس کریں۔ ایک الگ پیالی میں 1/4 کپ بادام کا تیل اور 60 گرام بادام پسے ہوئے ملائیں۔ اب ان دونوں آ میزوں کو ملا دیں ساتھ آدھا چائے کا چمچ میٹھاا سوڈ بھی شامل کریں۔ آپ اس کریم کو دو ماہ تک فریج میں رکھ کے استمال کر سکتی ہیں۔
کلینز ینگ کریم کو نقطوں کی طرح پورے چہرے اور گردن پر لگا کے مساج کریں۔ اور پھر روئی سے صاف کر لیں۔
Step 2۔
جن کی جلد خشک یا نارمل ہو وہ زیتون یا ناریل کے تیل سے مساج کرکے روئی سے صاف کریں۔
Step 3۔
فیس سکرب۔
دال مسور، مونگ، اور چنا کو ایک جتنی مقدار میں لیں اور دودھ، دہی یا شہد کے ساتھ اچھی طرح مکس کرکے چہرے اور گردن پر نرم ہاتھوں سے مساج کریں پھر منہ دھو لیں۔
Step4۔
بھاپ لینا۔
برتن میں پانی گرم کریں جب ابال آنے لگے تو پانی میں ایک لیموں کا رس،ساتھ چھلکے، پودینہ کی چند پتیاں اور تھوڑا سا عرق گلاب ڈال دیں۔ تین چار منٹ پکنے دیں۔ کسی ایسی جگہ کا انتحاب کریں جہاں آپ با آسانی کھژے ہو کہ بھاپ لے سکیں۔ اپنا چہرہ بھاپ سے 8-10 انچ کے فاصلے پر رکھ کے بھاپ لینے کا عمل شروع کریں ، سر کو تولیہ سے کور کر لیں کہ بھاپ باہر نہ نکلے۔ 3-5 منٹ تک بھاپ لیں۔بھاپ سے چہرہ ہٹا کے کچھ دیر تولیہ سے کور رہنے دیں اور پھر ٹشو سے صاف کر لیں۔
Step5۔
ماسک۔
2 ٹیبل سپون شہد اور 2 ٹیبل سپون دودھ مکس کرکے چہرے اور گردن پر دس منٹ تک لگا رہنے دیں اور پھر نیم گرم پانی سے دھو لیں۔
خشک اور داغ دھبوں والی جلد کے لئے جئی کا آٹا ، شہد، اور دہی ملا کے پیسٹ بنا لیں چہرے اور گردن پر دس سے پندرا منٹ لگا رہنے دیں اور پھر نیم گرم پانی سے دھو لیں۔
ماسک آنھکوں اور ہونٹوں کے اوپر نہ لگائیں۔ ماسک لگا کے آنھکوں پر کھیرے کے قتلے رکھیں اس سے آنھکوں کو سکون ملے گا۔
آخر میں ٹونر عرق گلاب لگائیں۔ اگر جلد پر دانے ہیں تو برف سے مساج کرکے عرق گلاب لگائیں۔
مساج کا طریقہ۔
مساج گردن سے شروع کریں۔ انگلیوں کو نیچے سے او پر حرکت دیں۔
چہرے پر مساج کرتے ہوئے اپنے دونوں ہاتھو ں کی انگلیوں کو اس طرح رکھیں کہ ایک انگلی ہونٹ کے اوپری حصے پر اور تین انگلیاں تھوژی پر ہوں اب دائیں ہاتھ کو دائیں اور بائیں ہاتھ کو بائیں طرف حرکت دیں۔
گالوں پر انگلیوں کو گول دائرے کی صورت میں گھمائیں۔ اور انگلیوں کو نیچے سے او پر لے کر جائیں۔
ناک کے اطراف انگھٹے سے گولائی میں مساج کریں۔ ناک کے او پر ہڈی پر شہادت کی انگلی کو آگے پھچے حرکت سے مساج کرنا ہے۔
آنھکوں پر شہادت کی انگلی کو گول گھمائیں۔
پیشانی پر بھی گول دائرے کی صورت میں مساج کریں۔ یا پیشانی کے وسط سے انگلیوں کو دائیں اور بائیں حرکت دیں۔
کلینزینگ اور سکرب میں مساج کا یہ عمل تین تین بار کرنا ہے

ڈالڈا دسترخوان

کس کے ہاتھ پر میرا لہو ہے


ہمارے جذبات نہ سمجھ میں آنے والا عجب گورکھ دھندہ ہیں جو بعص اوقات ایسے افراد کیلئے اْ مڈ آتے ہیں جن کا ساتھ بس لمحوں پر مخیط ہوتا ہے لیکن اْن کا دکھ دل کی اتھاہ گہرائیوں سے محسوس ہوتا ہے ۔ مسلسل تین دن تک آج تیسرا دن تھا مجھے اْ س لڑکی کو چپ کی د بیز چادر میں لپٹے دیکھتے ہوئے ہر روز کی طرح آج بھی ُ س کی چمکتی سیاہ خزاں زدہ آنکھیں کسی غیرمرئی نقطہ پر کچھ کھوج رہی تھیں جیسے اپنے ہونے کا جواز ڈھونڈ رہی ہوں ۔ میں خود کو اْس سے بات کرنے سے روک نہ سکی او ر اْ س کے پاس چلی گئی میرے بار بار مخاطب کر نے پر ایک سرد خاموش نظر مجھ پر ڈال کے وہ ایک طرف چل پڑی میں ایک دم افسردہ ہو گئی کہ شائد وہ معصوم لڑکی بولنے کی صلاحیت سے محروم ہے لیکین بعد کی معلومات نے مجھے لرزہ کے رکھ دیا کہ اْ س معصوم کو بولنے کی صلاحیت سے محروم اْ س کے عزت دار اْنچی ناک والے باپ بھائیوں نے کیا ہے اُس کی چمکتی آنکھوں کو خزاؤ ں کا تخفہ اُ س کے پیاروں نے دیا ہے اُس لڑکی کی قرآن سے شادی کی گئی تھی اور اپنے خاندانی رسم و رواج کو جانتے ہوئے بھی وہ اْن سے سمجھو تہ نہ کر سکی او ر ذ ہنی مریضہ بن گئی تھی کسی بھائی نے رحم کھاتے ہوئے اْس کو ہسپتال داخل کروا دیا تھا۔
زمانہ جاہلیت میں عورتوں کے ساتھ جانوروں کا سا سلوک کیا جاتا تھا اور ان کو زندہ دفن کر دیا جاتا تھا پھر اسلام کا ظہور ہوا اور عورت کو ایک باعزت مقام دیا گیا ۔ ارشادِ باری ہے "میں نے عورت کو مقدم کیا" ۔ لیکین اگر دیکھا جائے تو آج کے ترقی یافتہ دور میں بھی پاکستان کے کچھ علاقوں میں جاہلیت کا ہی راج ہے مرد ظالم خکمر ا ن اور عورت مظلوم ہے جس کو روایات کی بھٹی میں بڑ ے فخر سے جھونکا جاتا ہے صدیوں سے نوجوان لڑکیوں کی آنکھوں میں سجنے والے خواب اور امید کے دیے کو بڑی بے دردی سے نوچ کر زندہ درگوں کر دیا جاتا ہے اور کیسی عجیب بات ہے کہ کوئی پرسانِ حال بھی نہیں۔ عورت ماں کے روپ میں ٹھنڈی چھاؤں ، بیوی ہو تو ہمدرد ساتھی ، بہن بن کے دوست اور بطور بیٹی رحمت ہے ۔
نبی کریم نے فرمایا کہ "جس شخص کی کوئی بہن یا بیٹی ہو اور وہ ا سے زندہ درگوں نہ کرئے اور نہ ذلت اور حقارت کے ساتھ رکھے تو ا للہ ایسے شخص کو جنت میں داخل کرئے گا"۔
اندرونِ سندھ کے قبائل میں یہ قبیخ رواج ہے کہ بہن یا بیٹی کی شادی خاندان میں ہی کی جاتی ہے تاکہ جائداد خاندان سے باہر نہ منتقل ہو اور اگر خاندان میں رشتہ موجود نہ ہو تو بہن یا بیٹی کی شادی قرآن سے کر دی جاتی ہے اس کو خق بخشی بھی کہتے ہیں۔ جس لڑکی کی شادی قرآن سے کرنا ہو وہ غسل کرتی ہے خاندان کا سربراہ اس کا سر سفید دوپٹے سے ڈھانپتا ہے اور مولوی قرآن سے نکاح پڑھا دیتا ہے اس لڑکی کو ہر ردز قرآن پڑھنے کی تلقین کی جاتی ہے اس طرح رسم و رواج کی ماری لڑکی کی ساری زندگی ایک کمرے میں قید ہو کے قرآن کے لئے وقف ہو جاتی ہے۔ اندرونِ سندھ نہ صرف مختلف قبائلی سرداروں کی بہنوں اور بیٹیوں کی شادیاں قرآن سے کی گئی ہیں بلکہ پڑھے لکھے سیاست دان بھی ان میں شامل ہیں جو تقریرں میں تو عورتوں کی آزادی اور ان کے حقوق پر زور دیتے ہیں لیکن اپنے خاندان کی خواتین پر زندگی کا دائرہ انتہائی تنگ رکھتے ہیں کہ وہ کھل کر سانس بھی نہیں لے سکتیں۔ ان قوم کے سپوتوں میں سندھ کے سابق ایم پی اے کی بہن ، سابق وزیر کی بہن اور دو بیٹیاں ، مٹیاری کے میر کی تین بیٹیاں ، اور ان کے علاوہ دوسرے وڈیروں کی بہنیں ، بیٹیاں شامل ہیں۔ ایک سروے کے غیر ختمی نتائج کے مطابق سندھ میں دس ہزار لڑکیوں کو اس رواج کی صلیب چڑھایا جا چْکا ہے ۔
یہ وخشیانہ رسم و رواج قطی غیر شرعی اسلام اور قرآن کے منافی ہیں ۔ ہم مسلمان خضور کا آخری خطبہ بھول چکے ہیں جس میں آ پ نے واضع فرما یا تھا "آج میں نے تمہارے لئے تمہارا دین مکمل کر دیا ' اور تم پر اپنی نعمت پوری کر دی ' اور میں نے تمہارے لئے اسلام کو بطور دین پسند کیا" ہم یہ بھول چکے ہیں کہ یہ رسم ہمارے مذہب کے منافی اور اس سے کھلی بغاوت ہے ۔
پاکستان میں صرف جائداد کے لالچ میں جیتی جاگتی لڑکیوں کے خواب چھین کے ان کو روایات کی صلیب پر چڑھا دیا جاتا ہے جہاں سے رہائی کی صورت صرف ابدئی موت ہے ناجانے یہ رسم کب سے چلی آ رہی ہے اور کب تک چلے گی کب کوئی اس کے خلاف علم بغاوت بلند کرکے مزید بڑھنے سے روکے گا ۔ اس کا موردِ الزام فردِ واحد کو ٹھہرانا غلط ہے ماں بہن بیوی اور خاندان کی دوسری خواتین بھی اس جرم میں برابر کی شریک ہیں جو ان فرسودہ روایات میں مردوں کا ساتھ دیتی ہیں ۔
بظاہر تو ہمارے ملک کا میڈیا بہت سرگرم نظر آتا ہے پولیس کی چھترول کے فوٹیج ہوں یا ثانیہ ، شعیب کی شادی کا معاملہ ہر خبر کو منظر عام پر لانے کے لئے ایک دوسرے پر سبقت لے جانے کی کوشیش کی جاتی ہے کہ ہم نے پہلے یہ خبر نشر کی ہے دن رات بحث لاحاصل پروگرام کئے جاتے ہیں لیکین افسوس کبھی اس حساس موضوع کو حالاتِ خاضرہ کے پروگرام میں نہیں چھیڑا گیا۔ کبھی اس ظلم کے خلاف فوٹیج نہیں چلائی گئی۔ یا اس طرف دھیان اس لئے نہیں دیا جاتا کہ اس رسم و رواج کی پشت پناہی وہ وڈیرے اور جاگیر دار کرتے ہیں جو اسمبلیوں میں بیٹھے
ہیں ؟ میڈیا کو چاہیے اپنا مثبت کردار ادا کرتے ہوئے اس طرح کے انسانیت سوز رسم و رواج کی بھرپور مذمت کرتے ہوئے حکام بالا کی اس طرف توجہ دِلائے اور اسمبلی میں اس طرح کی فرسودہ رسم و رواج کے خلاف بل منظور کروایا جائے اور ذمہ دار افراد کو سزا دی جائے تاکہ ہماری آنے والی بیٹیوں کی آنکھوں کے خواب سلامت رہیں اور وہ ان کی تعبیر پا سکیں ۔

Monday, January 17, 2011

پا نی ایک سرمایہ


آئیے ایک بیش قیمت سرمایہ کا جائزہ لیتے ہیں یہاں اسں گھر میں کپڑے دھوئے جا رہے ہیں نلکا کھلا ہے اور کپڑے دھونے والی غائب ، دوسرے گھر میں بچے پانی سے کھیل رہے ہیں واہ کیا کھیل ہے، ذرا بچ کے کچھ آگے فرش اور گاڑی شڑپ شڑپ دھوئی جا رہی ہے، او ہو پریشان نہ ہوں یہ فوارا نہیں پائپ لیک ہو رہا ہے۔ جی ہا ں یہ پانی اپنی قدرومنزلت پر ماتم کناں ہے پانی جو انسان اور جاندار اشیاء کے لئے زندگی کا سر چشمہ ہے جس نے اس روئے زمین پر ہر جاندار کو زندہ رکھا ہوا ہے۔ اگر پانی نہ ہوتا تو زندگی بھی نہ ہوتی۔ پانی جو ایک بیش قیمت سرمایہ ہے جیسے ہم اپنی روزمرہ زندگی میں کثرت سے استمال کرتے ہیں . اب دنیا کی آ بادی میں روزبروز اضافے کی وجہ سے اس کا استمال بھی ذیادہ ہو گیا ہے جو پانی کے بحران کا ضامن ہے اور اسی صورتِ حال سے ہم بھی دوچار ہیں .
2005 میں عا لمی بینک نے ایک تنبیہی رپورٹ پیش کی تھی جس میں کہا گیا تھا کہ پا کستا ن میں پا نی کی کمی کا مسئلہ ا یتھوپیا سے زیادہ سنگین نوعیت کا ہو گا لیکن اربا بٍ اختیار نے اس بات کو قابلِ توجہ سمجھا ہی نہیں اورناک پرسے مکھی کی طرح سے اْڑا دیا۔جبکہ یہ بات اْ ن سب کےلئے لمحہ فکریہ ہےجو   پا کستا ن سے محبت کرتے ہیں اور اِ سے ایک کا میا ب ملک د یکھنا چاہتے ہیں . اگر پا کستا ن اپنے موجودہ مسائل جیسے دہشت گردی ، افراطِ آبادی ، بے روزگاری، اور مہنگائی پر قابو پا کے سیاسی، سماجی اور ثقافتی طور پر مضبوط بھی ہو جائے تو پانی کی کمی کا جن ا ن تمام کامیابیوں کو ملیامیٹ کر دئے گا . کیونکہ  پا کستا ن کی آبادی اور معشیت کا انحصار اسی ذرئعہ پر ہے ۔ افسوس اس بات کا ہے کہ حکومتی قائدین کی طر ف سے اس مسئلہ کا کوئی ٹھوس اور جامع حل نہیں سوچا گیا جس پر عمل کرکے موجودہ اور آنے والی نسلوں کو اس آسیب سے بچایا جا سکے۔
اگر غور کیا جائے تو پانی کا بحران اور بہت سے مسائل پیدا کرنے کا سبب بن سکتا ہے اور اس کا اثر براہِ راست زراعت پر ہو گا جس کے نتیجہ میں خوراک کی قِلت ہو گی اور اس کمی کو پورا کرنے کے لئے اگر خوراک درآمد کی گئی تو وہ لازمی طور پر مہنگی ہونے کی وجہ سے عام آدمی کی پہنچ سے دور ہو گی۔
پا کستا ن کی کثرتِِ آ بادی کی پینے کے پانی تک رسائی نہیں ہے جبکہ ہمارے سیاستدان ایوانوں میں منرل واٹر استمال کرتے ہیں اور ایک عام پا کستا نی پانی کی عدم موجودگی کی وجہ سے پیٹ کے اور جلد کے امراض میں مبتلا ہو کے زندگی سے ہاتھ دھو بیٹھتا ہے۔
بارش اللہ کی رحمت ہے جو ڈیم نہ ہونے سے ز خمت بن جاتی ہے سیلاب آنے سے گاؤ ں کے گاؤ ں تباہ ہو جاتے ہیں ا ور بارش کا پانی سمندر کے ساتھ مِل کے ضائع ہو جاتا ہے ۔
پا کستا ن کی موجودہ آ بادی 140 ملین کے قریب ہے اور اندیشہ ہے کہ 2025 تک یہ 208 ملین تک پہنچ جائے گی آ بادی میں اضافے کی وجہ سے ہر چیز کی طلب بڑھ رہی ہے جن میں سے اکثر و بیشتر کی پیداوار کا دارومدار پانی پر ہے جبکہ انڈس ، اور دیگر دریاؤ ں ، ڈیموں اور آبی ذخائر میں پانی کی صورتحال کافی خراب ہے اور یہ بتدریج کم ہو رہا ہے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ہم نے پچھلے پچاس سالوں میں آبی ذخائر کی ترقی کے لئے کیا اقدامات کئے ہیں ؟ ہم نے پانی کی تقسیم پر صوبوں کے درمیان صرف سنگین مخاذآرائی پیدا کی ہے ۔ اگر ہم دیگر ممالک پر نظر ڈالیں کہ ا نہوں نے گزشتہ پچاس سالوں میں پانی کے بحران سے بچنے کے لئے کیا حل نکالیں ہیں تو انہوں نے اس بحران پر قابو پانے کے لئے ڈیم اور آبی ذخائر تعمیر کئے ہیں ۔ اب یہ چین کو ہی دیکھ لیں 1949 میں چین کے پاس صرف 23 چھوٹے اور بڑے آبی ذخائر تھے جو پچاس سالوں میں بڑھ کے 85,000 تک پہنچ گئے ہیں جن کی پانی ذخائرہ کرنے کی مجموعی صلاحیت 479.7 ملین کیوبک ہے اور ان میں 2,953 چھوٹے ، بڑے ڈیم اور آبی ذخائر کی تعمیر شامل ہے جو 417 ملین کیوبک پانی کی گنجائش رکھتے ہیں۔ کچھ اسی طرح کی صورتحال ہمارے ہمسایہ ملک بھارت کی ہے ۔
یہ ہماری بدقسمتی ہے کہ ڈیموں کی تعمیر کو پا کستا ن میں سیاسی مسئلہ بنا دیا گیا ہے اور سیاستدان ایک دوسرے کی ٹانگ کھنچ کر تعمیر میں تاخیر کر رہے ہیں ۔ اگر مختلف صوبوں میں ڈیم تعمیر کئے جائیں تو یہ پانی کو ذخائرہ کرنے اور لوگوں کوپانی فراہم کرنے کے لئے استمال ہوں گا ۔ قطع نظر اس کے کہ کوئی منصوبہ کسی محصوص خطے یا صوبہ کے لئے اچھا یا برا ہے براء مہربانی پانی کے مسئلہ پر ایک ہو کے ملکی سطح پر سوچیں کیونکہ اگر ہمارا ملک پانی کی نعمت سے محروم ہو گیا تو اس سے متاثر پورا پا کستا ن ہو گا
اس کے علاوہ محکمہ آبپاشی کو اپنا کردار ادا کر تے ہوئے ایسی حکمتِ عملی اپنانی چاہیے جس سے پانی کی چوری روکی جاسکے اور پانی کی منصفانہ تقسیم کو یقینی بنایا جائے۔ہمیں ایسے پلانٹ لگانے کی ضرورت ہے جن سے سمندری پانی کو صاف کرکے پینے اور آبپاشی کے قابل بنایا جاسکے اور اس کے لئے ہمیں سعودی عرب سے مدد لینی چاہیے ۔
پانی قدرت کا عطیہ ہے جیسے ہم تباہ کر رہے ہیں ہمارے ہاں عام طور پر پانی کا استمال بے دریغ کیا جاتا ہے ۔ کوئی قدر نہیں کہ ہم کیا کھو رہے ہیں مگر اب ضرورت اس بات کی ہے کہ لوگوں میں آگاہی پیدا کریں کہ وہ پانی ضائع نہ کریں۔ پا نی کا مسئلہ اب صر ف سیاسی توجہ کا طالب نہیں بلکہ سماجی طور پر ہماری ذمہ داری بھی بن چْکا ہے کہ بحثیت ایک پا کستا نی ہم اپنا مثبت کردار ادا کریں اگر ہم نے پانی کو ضائع ہونے سے نہ بچایا تو یہ ہمارے پاس نہ رہے گا اور کہیں یہ نہ ہو کہ یہ خقیقتا ہمارے لئے آبِ حیات بن جائے ۔