آئیے ایک بیش قیمت سرمایہ کا جائزہ لیتے ہیں یہاں اسں گھر میں کپڑے دھوئے جا رہے ہیں نلکا کھلا ہے اور کپڑے دھونے والی غائب ، دوسرے گھر میں بچے پانی سے کھیل رہے ہیں واہ کیا کھیل ہے، ذرا بچ کے کچھ آگے فرش اور گاڑی شڑپ شڑپ دھوئی جا رہی ہے، او ہو پریشان نہ ہوں یہ فوارا نہیں پائپ لیک ہو رہا ہے۔ جی ہا ں یہ پانی اپنی قدرومنزلت پر ماتم کناں ہے پانی جو انسان اور جاندار اشیاء کے لئے زندگی کا سر چشمہ ہے جس نے اس روئے زمین پر ہر جاندار کو زندہ رکھا ہوا ہے۔ اگر پانی نہ ہوتا تو زندگی بھی نہ ہوتی۔ پانی جو ایک بیش قیمت سرمایہ ہے جیسے ہم اپنی روزمرہ زندگی میں کثرت سے استمال کرتے ہیں . اب دنیا کی آ بادی میں روزبروز اضافے کی وجہ سے اس کا استمال بھی ذیادہ ہو گیا ہے جو پانی کے بحران کا ضامن ہے اور اسی صورتِ حال سے ہم بھی دوچار ہیں .
2005 میں عا لمی بینک نے ایک تنبیہی رپورٹ پیش کی تھی جس میں کہا گیا تھا کہ پا کستا ن میں پا نی کی کمی کا مسئلہ ا یتھوپیا سے زیادہ سنگین نوعیت کا ہو گا لیکن اربا بٍ اختیار نے اس بات کو قابلِ توجہ سمجھا ہی نہیں اورناک پرسے مکھی کی طرح سے اْڑا دیا۔جبکہ یہ بات اْ ن سب کےلئے لمحہ فکریہ ہےجو پا کستا ن سے محبت کرتے ہیں اور اِ سے ایک کا میا ب ملک د یکھنا چاہتے ہیں . اگر پا کستا ن اپنے موجودہ مسائل جیسے دہشت گردی ، افراطِ آبادی ، بے روزگاری، اور مہنگائی پر قابو پا کے سیاسی، سماجی اور ثقافتی طور پر مضبوط بھی ہو جائے تو پانی کی کمی کا جن ا ن تمام کامیابیوں کو ملیامیٹ کر دئے گا . کیونکہ پا کستا ن کی آبادی اور معشیت کا انحصار اسی ذرئعہ پر ہے ۔ افسوس اس بات کا ہے کہ حکومتی قائدین کی طر ف سے اس مسئلہ کا کوئی ٹھوس اور جامع حل نہیں سوچا گیا جس پر عمل کرکے موجودہ اور آنے والی نسلوں کو اس آسیب سے بچایا جا سکے۔
اگر غور کیا جائے تو پانی کا بحران اور بہت سے مسائل پیدا کرنے کا سبب بن سکتا ہے اور اس کا اثر براہِ راست زراعت پر ہو گا جس کے نتیجہ میں خوراک کی قِلت ہو گی اور اس کمی کو پورا کرنے کے لئے اگر خوراک درآمد کی گئی تو وہ لازمی طور پر مہنگی ہونے کی وجہ سے عام آدمی کی پہنچ سے دور ہو گی۔
پا کستا ن کی کثرتِِ آ بادی کی پینے کے پانی تک رسائی نہیں ہے جبکہ ہمارے سیاستدان ایوانوں میں منرل واٹر استمال کرتے ہیں اور ایک عام پا کستا نی پانی کی عدم موجودگی کی وجہ سے پیٹ کے اور جلد کے امراض میں مبتلا ہو کے زندگی سے ہاتھ دھو بیٹھتا ہے۔
بارش اللہ کی رحمت ہے جو ڈیم نہ ہونے سے ز خمت بن جاتی ہے سیلاب آنے سے گاؤ ں کے گاؤ ں تباہ ہو جاتے ہیں ا ور بارش کا پانی سمندر کے ساتھ مِل کے ضائع ہو جاتا ہے ۔
پا کستا ن کی موجودہ آ بادی 140 ملین کے قریب ہے اور اندیشہ ہے کہ 2025 تک یہ 208 ملین تک پہنچ جائے گی آ بادی میں اضافے کی وجہ سے ہر چیز کی طلب بڑھ رہی ہے جن میں سے اکثر و بیشتر کی پیداوار کا دارومدار پانی پر ہے جبکہ انڈس ، اور دیگر دریاؤ ں ، ڈیموں اور آبی ذخائر میں پانی کی صورتحال کافی خراب ہے اور یہ بتدریج کم ہو رہا ہے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ہم نے پچھلے پچاس سالوں میں آبی ذخائر کی ترقی کے لئے کیا اقدامات کئے ہیں ؟ ہم نے پانی کی تقسیم پر صوبوں کے درمیان صرف سنگین مخاذآرائی پیدا کی ہے ۔ اگر ہم دیگر ممالک پر نظر ڈالیں کہ ا نہوں نے گزشتہ پچاس سالوں میں پانی کے بحران سے بچنے کے لئے کیا حل نکالیں ہیں تو انہوں نے اس بحران پر قابو پانے کے لئے ڈیم اور آبی ذخائر تعمیر کئے ہیں ۔ اب یہ چین کو ہی دیکھ لیں 1949 میں چین کے پاس صرف 23 چھوٹے اور بڑے آبی ذخائر تھے جو پچاس سالوں میں بڑھ کے 85,000 تک پہنچ گئے ہیں جن کی پانی ذخائرہ کرنے کی مجموعی صلاحیت 479.7 ملین کیوبک ہے اور ان میں 2,953 چھوٹے ، بڑے ڈیم اور آبی ذخائر کی تعمیر شامل ہے جو 417 ملین کیوبک پانی کی گنجائش رکھتے ہیں۔ کچھ اسی طرح کی صورتحال ہمارے ہمسایہ ملک بھارت کی ہے ۔
یہ ہماری بدقسمتی ہے کہ ڈیموں کی تعمیر کو پا کستا ن میں سیاسی مسئلہ بنا دیا گیا ہے اور سیاستدان ایک دوسرے کی ٹانگ کھنچ کر تعمیر میں تاخیر کر رہے ہیں ۔ اگر مختلف صوبوں میں ڈیم تعمیر کئے جائیں تو یہ پانی کو ذخائرہ کرنے اور لوگوں کوپانی فراہم کرنے کے لئے استمال ہوں گا ۔ قطع نظر اس کے کہ کوئی منصوبہ کسی محصوص خطے یا صوبہ کے لئے اچھا یا برا ہے براء مہربانی پانی کے مسئلہ پر ایک ہو کے ملکی سطح پر سوچیں کیونکہ اگر ہمارا ملک پانی کی نعمت سے محروم ہو گیا تو اس سے متاثر پورا پا کستا ن ہو گا
اس کے علاوہ محکمہ آبپاشی کو اپنا کردار ادا کر تے ہوئے ایسی حکمتِ عملی اپنانی چاہیے جس سے پانی کی چوری روکی جاسکے اور پانی کی منصفانہ تقسیم کو یقینی بنایا جائے۔ہمیں ایسے پلانٹ لگانے کی ضرورت ہے جن سے سمندری پانی کو صاف کرکے پینے اور آبپاشی کے قابل بنایا جاسکے اور اس کے لئے ہمیں سعودی عرب سے مدد لینی چاہیے ۔
پانی قدرت کا عطیہ ہے جیسے ہم تباہ کر رہے ہیں ہمارے ہاں عام طور پر پانی کا استمال بے دریغ کیا جاتا ہے ۔ کوئی قدر نہیں کہ ہم کیا کھو رہے ہیں مگر اب ضرورت اس بات کی ہے کہ لوگوں میں آگاہی پیدا کریں کہ وہ پانی ضائع نہ کریں۔ پا نی کا مسئلہ اب صر ف سیاسی توجہ کا طالب نہیں بلکہ سماجی طور پر ہماری ذمہ داری بھی بن چْکا ہے کہ بحثیت ایک پا کستا نی ہم اپنا مثبت کردار ادا کریں اگر ہم نے پانی کو ضائع ہونے سے نہ بچایا تو یہ ہمارے پاس نہ رہے گا اور کہیں یہ نہ ہو کہ یہ خقیقتا ہمارے لئے آبِ حیات بن جائے ۔
No comments:
Post a Comment